اسلام آباد: ملک میں صدارتی نظام حکومت متعارف کروانے کی قیاس آرائیاں پٹیشن کی صورت میں سپریم کورٹ تک پہنچ گئیں جس میں وزیراعظم عمران خان کو موجود پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام حکومت کی راہ ہموار کرنے کے لیے ملک گیر ریفرنڈم کروانے کا کہا گیا ہے۔
درخواست میں صدر مملکت، وزیراعظم اور چاروں صوبائی حکومتوں کے علاوہ الیکشن کمیشن اور گلگت بلتستان حکومت کو فریق بنایاگیا ۔ درخواست میں کہاگیا ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت ناکام ہوچکا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کا حکم دیا جائے۔
ایک غیر معروف تنظیم ہم عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ طاہر عزیز خان کی دائر کردہ درخواست میں کہا گیا کہ وزیراعظم عمران خان کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظوری لے کر ریفرنڈم کروانا چاہیئے۔
پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا کہہ آئین کے باب اول اور دوم میں عوام کے فراہم کردہ بنیادی حقوق موجودہ پارلیمانی حکومت کی جانب سے ان کی فلاح و بہبود اور مختلف شعبہ زندگی میں پیش رفت میں ناکامی کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔
درخواست میں مزید کہاگیاکہ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے صدارتی نظام ناگزیر ہے، پارلیمانی نظام حکومت میں ارکان پارلیمنٹ ذاتی مفادات کے لیے حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں، کورم پورا نہ ہونے پر معمولی قانون سازی بھی نہیں ہو سکتی۔
درخواست میں کہا گیا کہ پاکستان کے عوام کی خراب حالت پاکستان کے نظام حکومت کی براہ راست عکاس ہے کیوں کہ پارلیمانی نظام حکومت ناکام ہوچکا ہے اور مارچ 2020 تک ملک کا سرکاری قرض 428 کھرب روپے یا 2 ارب 56 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
ملک کے مالیاتی بوجھ کے مایوس کن اعدادو شمار کا ذکر کرنے کے بعد درخواست میں پارلیمینٹیرینز کی وفاداریاں تبدیل کرنے کے نظام کو تنقید کا نشاہ بنایا گیا 'جو اپنے ذاتی مفادات کے فروغ کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں'۔
چنانچہ اس وجہ سے اکثر عوام کی فلاح و بہبود اور حالات کا خیال رکھنے کے لیے صحت مند اپوزیشن اور مضبوط حکومت سامنے نہیں آسکتی۔
درخواست میں کہا گیا کہ حکومت اور مقننہ کے مابین اختیارات کو علیحدہ کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں، اور اسے انتظامیہ کو سیاسی بنانے، نان پروفیشنل ازم، اقربا پروری اور بدعنوانی کی بڑی وجہ قرار دیا گیا۔
Post a Comment
اگر آپ کو کچھ کہنا ہے تو ہمیں بتائیں