اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی 22 ستمبر کو حاضری کے لیے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی حاضری استثنیٰ کی درخواست پر سماعت کی۔
سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل دیئے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا جو کچھ دیر بعد سنایا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے مسلسل عدم حاضری پر سابق وزیراعظم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے جس کے بعد نواز شریف کو مفرور قرار دینے کی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت منسوخی کی درخواست دی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ابھی نیب کی نواز شریف کی ضمانت منسوخی کی درخواست التوا میں رکھ رہے ہیں، پہلے خواجہ صاحب کے دلائل سن لیں پھر نیب کی درخواست سنیں گے، ابھی تو ہم نے طے کرنا ہے کہ کیا نواز شریف کی درخواست سنی بھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ ۔
وکیل خواجہ حارث نے پرویز مشرف کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اثاثوں کی چھان بین کے کیس میں پرویز مشرف کے وکیل کو پیش ہونے کی اجازت دی گئی، لہذا غیر معمولی حالات میں ملز کی بجائے اس کے وکیل کو پیش ہونے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو مفرور اور اشتہاری قرار دیا ہوا تھا، اس کے باوجود سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کے وکیل کو سنا، ملزم کے پیش نہ ہونے کو جواز بنا کر ٹرائل کو روکا نہیں جا سکتا، عدالت ملزم کیلئے سرکاری وکیل مقرر کر کے ٹرائل آگے بڑھائے گی، نواز شریف فی الحال عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔
واز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ نوازشریف لندن میں ہیں اورپاکستان واپس آنے کی پوزیشن میں نہیں،ڈاکٹرز نے نواز شریف کو سفرکرنے سے منع کیا ہے، نوازشریف نے واضح طورپر اپنی درخواست میں کہاکہ وہ پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں، نواز شریف کو ڈاکٹرز نے سفرکی اجازت دی تو وہ پہلی فلائٹ سے واپس آجائیں گے۔
دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس ديےکہ ضمانت لےکر باہر جانے والے نے سرجری نہیں کرائی، نہ ہی اسپتال داخل ہوا، نواز شریف کے میڈيکل سرٹیفکیٹ ایک کنسلٹنٹ کی رائے ہے جو کسی اسپتال کی طرف سے نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی اسپتال نے نہیں کہاکہ ہم کورونا کی وجہ سے نوازشریف کو داخل کرکے علاج نہیں کرپارہے، ہمارا ضمانت کا حکم ختم ہو چکا ہے جس کے اپنے اثرات ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت ختم ہوچکی ہے اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ نوازشریف کی ضمانت ختم ہوچکی ہے،اب صرف سوال یہ ہےکہ کیاوہ پاکستان واپس آنے کی پوزیشن میں ہیں یا نہیں؟ ہم نے نوازشریف کے میڈیکل سرٹیفکیٹ دیے ہیں، نیب اور وفاقی حکومت نے ان میڈیکل سرٹیفکیٹس کی تردید میں کچھ پیش نہیں کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی واپسی سے متعلق معاملہ لاہورہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے، اِس کورٹ سے باہر جانے کی اجازت نہیں مانگی گئی، ضمانت ایک مخصوص مدت کے لیے تھی اور شاید یہ بات لاہور ہائی کورٹ کو نہیں بتائی گئی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمارے سامنےصرف ایک سوال ہےکہ ضمانت دی تھی جوختم ہوگئی، اب ہم کیاکریں۔
Post a Comment
اگر آپ کو کچھ کہنا ہے تو ہمیں بتائیں